English News

indianarrative
  • youtube
  • facebook
  • twitter

این ای پی 2020پرگورنروں کی کانفرنس کےافتتاحی اجلاس میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

این ای پی 2020پرگورنروں کی کانفرنس کےافتتاحی اجلاس میں وزیراعظم کے خطاب کا متن
نمسکار!
عزت مآب جناب صدر، وزارتی کونسل کے میرے ساتھی رمیش پوکھریال نشنک جی ، سنجے دھوترے جی ، اس اجلاس میں حصہ لے رہے سبھی معزز گورنر، لیفٹینٹ گورنرحضرات ، ریاستوں کے وزرائے تعلیم، قومی تعلیمی پالیسی کو ڈیزائن کرنے میں اہم رول اداکرنے والے ڈاکٹرکستوری رنگن جی اوران کی ٹیم ، الگ الگ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ، ماہرین تعلیم ، خواتین وحضرات ۔
سب سے پہلے میں محترم صدرجمہوریہ کا شکریہ اداکرتاہوں ۔قومی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے یہ اسکیم بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔تعلیمی دنیا کا سیکڑوں برسوں کا تجربہ ایک ساتھ یہاں مرکوز ہے ۔ میں سبھی کا خیرمقدم کرتاہوں ، استقبال کرتاہوں ۔
عزت مآب ،
ملک کی خواہشات کو پوراکرنے کابہت اہم طریقہ تعلیم پالیسی اورتعلیم کا نظام ہوتاہے ۔ نظام تعلیم کی سے مرکز ی سرکار، ریاستی سرکار، مقامی ادارے ، سبھی جڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ تعلیم کی پالیسی میں حکومت ، اس کا عمل دخل ، اس کااثر ، کم سے ہوناچاہئے ۔ تعلیمی پالیسی سے جتنااساتذہ جڑے ہوں گے ، سرپرست جڑے ہوں گے ، طلبااور طالبات جڑے ہوں گے ، اتنا ہی اس کی موزونیت اور وسعت ، دونوں ہی میں اضافہ ہوگا ۔
قومی تعلیمی پالیسی پرچارپانچ سے قبل کام شروع ہواتھا۔ ملک کے لاکھوں لوگو ں نے ، شہرمیں رہنے والے لوگوں نے ، گاوں میں رہنے والے لوگو ںنے ، تعلیم کے شعبے سے جڑے تجربہ کارافراد نے ، اس کے لئے اپنا فیڈ بیک دیاتھا ، اپنے مشورے دیئے تھے ۔ تعلیمی پالیسی کا جوڈرافٹ تیارہواتھا ، اس کے لئے الگ الگ پوائنٹسپربھی دولاکھ سے زیادہ افراد نے اپنے مشورے دیئے تھے ۔ یعنی سرپرستوں ، طلبااورطالبات ، ماہرتعلیم ، اساتذہ ، تعلیمی انتظام ، پروفیشنلس ، سبھی نے اس کی تعمیر میں اپنی تعاون دیاہے ۔ اتنا گہرا، اتنا وسیع ، اتنی کوششوں سے بھرا ہوا منتھن کے بعد اب یہ جوامرت نکلاہے ، اس لئے ہی اب ہرطرف راشٹریہ تعلیمی پالیسی کا خیرمقدم ہورہاہے ۔

گاؤں میں کوئی استاد ہو یاپھربڑے بڑے ماہرتعلیم ، سب کو قومی تعلیمی پالیسی ، اپنی تعلیمی پالیسی لگ رہی ہے ۔ سبھی کے دل میں ایک خواہش ہے کہ پہلے کی تعلیمی پالیسی میں یہی سدھار تومیں ہوتے ہوئے دیکھناچاہتاتھا۔ یہ ایک بہت ہی بڑی وجہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کی منظوری کی ، کامیابی کی اصل وجہ یہی ہے ۔
تعلیمی پالیسی کیا ہو ، کیسی ہو، اس کا طریقہ کیاہو ، یہ طے کرنے کے بعد اب ملک ایک قدم آگے بڑھاہے ۔ اب پورے ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کو لے کر ، اس کی عملی شکل کو لے کر وسیع پیمانے پرتبادلہ خیال ہورہاہے ، سوچ وچارہورہاہے ۔ یہ وسیع توجہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ قومی تعلیمی پالیسی ، نیشنل ایجوکیشن پالیسی ، صرف پڑھائی لکھائی کے طورطریقوں سےہی بدلاو لانے کے لئے نہیں ہے ۔ یہ پالیسی 21ویں صدی کے بھارت کے سماجی اور اقتصادی زندگی کو نئی سمت دکھانے والی ہے ۔
یہ پالیسی خود کفیل بھارت کے عزم اوراہلیت کو شکل دینے والی ہے ۔ ظاہرہے ، اس بڑے عزم کے لئے ہماری تیاریاں ، ہماری بیداری بھی اتنا ہی بڑی ہونی چاہیئے ۔ آپ میں سے زیادہ تجربہ کار، قومی تعلیمی پالیسی کی باریکیوں کا مطالع کرچکے ہیں ۔ لیکن اتنے بڑے ریفارم کی باریکیوں ، اس کے مقاصد پرلگاتاربات کرنا ابھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ سارے شک وشبہات اورسوالوں کو سلجھاتے ہوئے ملک قومی تعلیمی پالیسی کی کامیابی سے لاگوکرپائے گا۔
عزت مآب ،
آج دنیا مستقبل میں تیزی سے بدلتے جابز ، نیچرآف ورک کو لے کر وسیع طورسے چرچا کررہی ہے ۔ یہ پالیسی ملک کے نوجوانوں کو مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق علم اور ہنر ، دونوں مورچوں پرتیارکرے گی ۔ نئی تعلیمی پالیسی ، مطالع کے بجائے سیکھنے پرتوجہ مرکوز کرتی ہے اور نصاب سے اورآگے بڑھ کر تنقیدی سوچ پرزوردیتی ہے ۔ اس پالیسی میں پروسیز سے زیادہ پیشن ، پریکٹکلٹی اور پرفارمنس پرزوردیاگیاہے ۔ اس میں فاونڈیشن لر ننگ اور زبانوں پرفوکس ہے ۔ اس میں لرننگ آوٹ کمس اور ٹیچرلرننگ پربھی فوکس ہے ۔ اس میں ایکسس اور اسسمنٹ کو لے کر بھی وسیع ریفارم کئے گئے ہیں ۔ ا س میں ہرطالب علم کوباختیاربنانے کا راستہ دکھایاگیاہے ۔
ایک طرح سے دیکھیں تو یہ ون سائز فٹس آل کی اپروچ سے ہماری تعلیمی نظام کو باہرنکالنے کا ایک مستحکم کوشش ہے ۔اور آپ سبھی ، جو جیّدبھی یو محسوس کرتے ہیں کہ یہ کوشش غیرمعمولی ہے ، معمولی نہیں ہے ۔ گذرے دہوں سے ہمارے تعلیمی نظام میں جوبھی کمیاں ہمیں نظرآتی تھیں ، جو بھی مسائل ہم کو لگتے تھے ، ان کو دورکرنے کے لئے تفصیل سے اس پالیسی میں چرچا کی گئی ہے ۔ اب جیسے ، لمبے وقت سے یہ باتیں اٹھتی رہی ہیں کہ ہمارے بچے بیگ اوربورڈ کے بوجھ تلے ، کنبہ اور سماج کے دباو کے نیچے دن پہ دن دبے جارہے ہیں ۔ اس پالیسی میں اس مسئلہ کو متاثرکن طریقے سے ایڈریس کیاگیاہے ۔ ہمارے یہاں تو کہابھی جاتا ہے کہ ‘ساودیا یا مکت ودیا ’یعنی علم وہی ہے جوہمارے مائنڈ کو لبریٹ کرے ۔
جب بنیادی سطح پرہی بچوں کو ان کے کلچر، زبان ، روایت ، سے جڑا جائے گا تو تعلیم اپنے آپ ہی بااثرہوگی ، آسان ہوگی اور طفلانہ مزاج اس سے خود کو جڑاہواپائے گا۔ قومی تعلیمی پالیسی میں ہمارے صحیح معنوں میں بغیردباو کے ، بغیرکمی کے اور بغیراثرکے سیکھنے کے ہمارے جمہوری اقدار کو تعلیمی نظام کا حصہ بنایاگیاہے ۔ جیسے اسٹریمس کو لے کر بچوں پردباو رہتاتھا، وہ اب ہٹادیاگیاہے ۔
اب ہمارے نوجوان اپنے دلچسپی ، اپنے نظریے کےحساب سے پڑھائی کرسکیں گے ۔ ورنہ پہلے ہوتایہ تھا کہ دباو کی وجہ سے طلباء اپنی صلاحیت کے باہر کی کوئی اورہی اسٹریم انتخاب کرلیتے تھے اور جب تک ان کو سمجھ آتاتھا تب تک بہت دیرہوجاتی تھی ۔ نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ یا تو طلباتھک ہارکرڈراپ کرلیتاتھا یاپھرجیسے تیسے وہ ڈگری پوری کرتاتھا۔ اس سے کس طرح کے مسائل ہمارے ملک میں پیداہوتے رہے ہیں ، یہ کتنے مسائل سے جڑے ہیں ، میں سمجھتاہوں مجھ سے زیادہ آپ لوگ جانتے ہیں ، اچھی طرح جانتے ہیں ۔ قومی تعلیمی پالیسی میں ، ایسے مسائل کا حل تو ہے ہی ، اکیڈمی بینک آف کریڈٹ سے بھی طلباء کو بہت فائدہ ہوگا۔
عزت مآب،
آتم نربھر بھارت بنانے کے لئے نوجوانوں کا اسکل فل ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی ووکیشنل ایکسپوزر ملنے سے ہمارا نوجوان مستقبل کے لئے بہتر طریقے سے تیار ہو گا۔ پریکٹیکل لرننگ سے ہمارے نوجوان ساتھیوں کی ایمپلائبلٹی ملک میں تو بڑھے گی ہی، عالمی جاب مارکیٹ میں بھی ہماری حصہ داری زیادہ ہو گی۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ۔ آ نو بھدرا: کرتوو ینتو وشوت: یعنی اچھے خیال جس ملک میں بھی آئیں ان کو اپنانا چاہئے۔ بھارت تو قدیم دور سے علم کا ایک عالمی مرکز رہا ہے۔ اکیسیویں صدی میں بھی بھارت کو ہم ایک نالج اکانومی بنانے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی اس عزم کو ثابت کرنے کی سمت میں بڑا قدم ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی نے برین ڈرین کو ٹیکل کرنے کے لئے اور معمولی سے معمولی کنبوں کے نوجوانوں کے لئے بھی بیسٹ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوشنز کے کیمپس بھارت میں قائم کرنے کا راستہ کھولا ہے۔ جب ملک میں ہی عالمی سطح کے ٹاپ کیمپس آئیں گے تو پڑھائی کے لئے باہر جانے کی ضرورت بھی کم ہو گی اور ہمارے اپنے یونیورسیٹی، کالج بھی زیادہ مسابقتی ہو پائیں گے۔ اس کا ایک پہلو آن لائن تعلیم بھی ہے جس سے پڑھائی لکھائی کے لئے لوکل، یا انٹرنیشنل، ہر طرح کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔
عزت مآب
جب کسی بھی سسٹم میں اتنی وسیع تبدیلی ہوتی ہے، جب ایک نیا سسٹم بنانے کی طرف ہم بڑھتے ہیں تو کچھ اندیشے فطری ہی ہیں۔ والدین کو لگتا ہے کہ اگر اتنی آزادی بچوں کو ملے گی اور اسٹریم ختم ہو جائیں گی تو آگے کالج میں ان کو داخلہ کیسے ملے گا، ان کے بچوں کے کیرئیر کا کیا ہو گا؟ پروفیسرز، اساتذہ کے دل میں سوال ہوں گے کہ وہ خود کو اس تبدیلی کے لئے تیار کیسے کر پائیں گے؟ اس طرح کا نصاب کیسے مینیج ہو پائے گا؟
آپ سبھی کے پاس بھی کئی سوال ہوں گے جن پر آپ چرچا بھی کر رہے ہیں۔ یہ سوال نفاذ سے جڑے زیادہ ہیں۔ جیسے اس میں نصاب تیار کیسے ہو پائے گا؟ مقامی زبانوں میں نصاب اور مواد کیسے تیار ہو پائیں گے؟ لائبریریز کو لے کر ڈیجیٹل اور آن لائن مواد اور پڑھائی کو لے کر جو باتیں اس میں رکھی گئی ہیں ان پر کیسے کام ہو گا؟ کہیں وسائل وذرائع نہ ہونے کے سبب ہم اپنے ہدف سے چوک تو نہیں جائیں گے؟ انتظامیہ کو لے کر بھی کئی طرح کے سوال آپ سبھی کے دل میں فطری طور پر ہوں گے۔ یہ سبھی سوال اہم بھی ہیں۔
ہر سوال کے حل کے لئے ہم سبھی مل کر کام کر رہے ہیں۔ وزارت تعلیم کی طرف سے بھی مسلسل بات چیت جاری ہے۔ ریاستوں میں بھی ہر اسٹیک ہولڈر کی پوری بات، ہر رائے کو، تاثر کو کھلے دماغ سے سنا جا رہا ہے۔ آخر ہم سبھی کو مل کر تو ہی تمام اندیشوں اور خدشات کو دور کرنا ہے۔ جس طرح کی لچک کا ویژن لے کر یہ پالیسی آئی ہے، اسی طرح زیادہ سے زیادہ لچک ہم سبھی کو بھی نافذ کرنے کو لے کر بھی دکھانی ہو گی۔
یہ تعلیمی پالیسی حکومت کی تعلیمی پالیسی نہیں ہے۔ یہ ملک کی تعلیمی پالیسی ہے۔ جیسے خارجہ پالیسی کسی حکومت کی نہیں، ملک کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، دفاعی پالیسی کسی حکومت کی نہیں، ملک کی دفاعی پالیسی ہوتی ہے، ویسے ہی تعلیمی پالیسی بھی کون حکومت ہے، کس کی سرکار ہے، کون بیٹھا ہے، کون نہیں بیٹھا ہے، اس کی بنیاد پر نہیں چلتی ہے۔ تعلیمی پالیسی ملک کی ہی پالیسی ہے۔ اور اس لئے 30 سال کے بعد، اس میں کئی حکومتیں آئیں کیونکہ یہ سرکاروں کے بندھنوں میں بندھی ہوئی نہیں ہے، یہ ملک کے عزائم سے جڑی ہوئی ہے۔
عزت مآب،
قومی تعلیمی پالیسی میں تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے پیش نظر، مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے وسیع التزامات کئے گئے ہیں۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی توسیع گاوں گاوں تک ہو رہی ہے، ملک کے غریب سے غریب کو، محروم، پچھڑے، قبائلی تک جدید ٹیکنالوجی پہنچتی جا رہی ہے، ویسے ویسے انفارمیشن اور نالج تک اس کی رسائی بھی بڑھ رہی ہے۔

آج میں دیکھتا ہوں کہ ویڈیو بلاگ کے توسط سے، ویڈیو اسٹریمنگ سائٹس پر کئی نوجوان ساتھی ایسے ایسے چینلز چلا رہے ہیں، ہر موضوع کی ایسی بہترین کوچنگ فراہم کرا رہے ہیں، جس کے بارے میں پہلے غریب گھر بچہ یا بچی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ٹیکنالوجہ تک ہونے والی اس پہنچ سے علاقائی اور سماجی عدم توازن کا ایک بہت بڑا مسئلہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر یونیورسیٹی، ہر کالج میں ٹیکنالوجی حل کو زیادہ فروغ دیں۔
عزت مآب ،
کوئی بھی سسٹم اتنا ہی موثر اور جامع ہو سکتا ہے جتنا بہتر اس کا گورننس ماڈل ہوتا ہے۔ یہی سوچ ایجوکیشن سے جڑی گورننس کو لے کر بھی یہ پالیسی ریفلیکٹ کرتی ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے ہر پہلو خواہ وہ اکیڈمک ہو، تکنیکی ہو، ووکیشنل ہو، ہر طرح کی تعلیم کو سائلوس سے باہر نکالا جائے۔ ایڈمنسٹریٹیو لیئرز کو کم سے کم رکھا جائے، ان میں زیادہ ہم آہنگی ہو، یہ کوشش بھی اس پالیسی کے توسط سے کی گئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے ریگولیشن کو بھی اس پالیسی کے ذریعہ اور سادہ اور اسٹریم لائن کیا جائے گا۔
گریڈڈ اٹانومی کے تصور کے پیچھے بھی کوشش یہی ہے کہ ہر کالج، ہر یونیورسیٹی کے بیچ صحت مند مسابقہ آرائی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور جو ادارے بہتر پرفارم کرتے ہیں ان کو انعام دیا جائے۔ آج ہم سبھی کا یہ اجتماعی فرض ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی ( این ای پی۔ 2020 ) کے اس احساس کو ہم پورے جوش وجذبے کے ساتھ نافذ کر سکیں۔ آپ سبھی سے خصوصی اپیل ہے کہ 25 ستمبر سے پہلے اپنی ریاستوں، مرکز کے زیر انتظام خطوں کی یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ اس طرح کی ورچوئل کانفرنس منعقد کی جائے۔ کوشش یہی ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کو لے کر مسلسل ہم سمجھتے چلیں، ہماری سمجھ بہتر ہو سکے، اس کے لئے کوشش ہو۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو اپنا وقت نکالنے کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں عزت مآب صدر جمہوریہ جی کا دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد اور آپ کے تئیں نیک تمنائیں۔
(شکریہ!!!پریس انفارمیشن بیورو کے شکریہ کے ساتھ ).