English News

indianarrative
  • youtube
  • facebook
  • twitter

عمران خان کو ہندوستانی مسلمانوں کا جواب

عمران خان کو ہندوستانی مسلمانوں کا جواب
ابھی پاکستان کی حالت عمران خان سے سنبھل نہیں رہی ہے۔ وزیر اعظم خود اور ان کی کابینہ کے وزیر بے مطلب ہندوستان کے بارے میں الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ اپنے شہریوں کی ترقی کی بات کی ہے۔ ہندوستان میں کسی کا مذہب دیکھ کر کبھی کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ باتیں پاکستان کے وزوروں کو معلوم تو ہے لیکن اپنی ناکامیوں کو شھپانے کے لئے وہ ہندوستان کا نام لے کر کچھ بولتے رہتے ہیں۔ ابھی بھی وہ اپنی حالت پر غور کرنے کے بجائے ہندوستانی مسلمانوں کے غم میں مرے جا رہے ہیں۔ لیکن ہندوستانی مسلمان پاکستان کے رحم وکرم پہ نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ہندوستانی مسلمان ہمیشہ جواب دینے کو تیا ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ روز پہلے مشہور فلم اسٹار نصیر الدین شاہ نے بھی عمران خان کو جواب دیا تھا۔
فلم اداکار نصیر الدین شاہ نے جو بات کہی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔ وہ بات ہندوستان کے خلاف نہیں تھی۔ وہ بات آئین کے خلاف نہیں تھی۔ وہ بات نفرت کے خلاف تھی اور نفرت کے سوداگروں کے خلاف تھی۔ ملک میں نفرت کا ماحول بنانے والوں کے خلاف تھی۔ عادت کے مطابق ہمارے ٹی وی چینلوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اور پھر سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ بپا ہوا۔ بات نکلی تو دور تک پہنچی۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان صاحب باتوں باتوں میں ہمیں آئینہ دکھانے لگے۔ اب اگر نصیر الدین شاہ چپ رہ جاتے تو ہم انھیں معاف نہیں کرتے۔ لیکن نصیر الدین شاہ بولے اور حق بات بولے۔ نصیر الدین شاہ وہی بولے جو ایک ہندوستانی مسلمان کو بولنا چاہئے۔ اور جو ہندوستانی مسلمان کی فکر ہے۔ نہ کچھ چھپانے کی ضرورت ہے، نہ کچھ چھپانے کی بات ہے۔ ہمارا موقف تو امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم وطن کے وقت ہی واضح کر دیا تھا۔ ہم تب بھی فکرِ جناح کے خلاف تھے اور آج بھی فکرِ جناح کے خلاف ہیں۔ہماری فکر مشترکہ تہذیب کی فکر ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی فکر ہے۔ اسی حوالے سے فلم اداکار نصیر الدین شاہ نے بیان دیا تھا۔ جس بیان پر ملک بھر میں ایک طوفان بپا ہے۔
نصیر صاحب کے بیان کے بعد بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ادھر پڑوسی ملک پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے نصیر الدین شاہ کے بیان کو بنیاد بنا کر اپنی امیج چمکانے کی کوشش کی۔ پھر عمران خان کے بیان کا ردعمل سامنے آیا۔ اپنی بلند آواز اور خاص انداز والے فلم ایکٹر آشوتوش رانا نے نصیر الدین شاہ کے بیان کی حمایت کی ہے۔ آشوتوش رانا نے کہا ہے کہ نصیر الدین شاہ کو اپنی بات کہنے کا پورا اختیار اور حق ہے۔
نصیرالدین شاہ نے جو کچھ کہا وہ درست ہے، انھیں آئین سے حق بھی ملا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ لیکن ان کے اس حالیہ بیان کے تین پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ نصیرالدین شاہ کو یہ بیان کیوں اور کن حالات میں دینا پڑا؟ دوسرا یہ کہ نصیرالدین شاہ کے بیان پر ردعمل پاکستان کی طرف سے کیوں اور کیسے آیا؟ اور تیسری اہم بات کہ نصیرالدین شاہ نے فوراً پلٹ کے جو جواب دیا اس کی کیا ضرورت اور اہمیت تھی؟ نصیر صاحب کے ساتھ ساتھ کرکٹرمحمد کیف نے بھی عمران خان کو جواب دیا۔ کرکٹر سے سیاست داں بنے پاکستانی وزیر اعظم کو اور بھی کئی مسلم رہنماؤں نے نصیحت دے ڈالی۔ ملک کے اندر اور باہر سوشل میڈیا پر بھی خوب گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ کچھ نادان دوست اپنی بے خبری کے سبب ماحول کو خراب کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ذرا ٹھہر کر غور کر لیں کہ ان باتوں کا پس منظر کیا ہے؟ اور ان باتوں سے کسے کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
جب نصیر الدین شاہ نے بیان دیا تو بات کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش شروع ہو گئی۔ نصیر الدین شاہ نے بیان اس لئے دیا کہ وہ ہندوستان کے ایک شہری ہیں۔ وہ پدم شری اور پدم بھوشن ہیں۔ ان کی خدمات کسی سے کم نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنی بہترین اداکاری سے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ وہ خود ایک سیکولر انسان ہیں۔ ان کی اہلیہ رتنا پاٹھک ایک گجراتی برہمن ہیں۔ وہ خود ایک بہترین اداکارہ ہیں۔ نصیرالدین شاہ کے دونوں بیٹے عماد شاہ اور وِوان شاہ بھی ابھرتے ہوئے فنکار ہیں۔
ان بیانات کا دوسرا پہلو پاکستان سے ردعمل کا آنا ہے۔ دراصل پاکستان جب بھی ہندوستانی مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرے گا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان نے دنیا میں اپنی جو امیج بنائی ہے وہ نہایت بد نما ہے۔ پاکستان جب بھی ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرے گا یا حقوق انسانی کی پامالی کی بات کرے گا تو اس پہ یہ محاورہ صادق آئے گا کہ سُوپ ہنسے تو ہنسے لیکن چھلنی بھی ہنسے جس میں بہتر چھید۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ عمران خان کے بیان پر نصیرالدین شاہ نے جو جواب دیا وہ معقول اور ضروری تھا۔ بہت پہلے جگر مراد آبادی کراچی کے ایک مشاعرے میں اپنا کلام پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے وہ نظم پڑھنے کی فرمائش کی گئی جو انھوں نے کچھ عرصہ پہلے اہل وطن سے شکایت کے طور پر لکھی تھی۔ جگر مراد آبادی نے کراچی کے مشاعرے میں وہ نظم سنانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ نظم اپنے ہم وطنوں سے شکایت ہے۔ میں یہاں وہ نظم نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ آپ غزل سننا چاہیں تو سنیں ورنہ میں بغیر کلام پڑھے واپس جانے کو تیا ر ہوں۔ اب یہی کام نصیر الدین شاہ نے بھی کیا ہے۔ جو ہمارے ملک کا معاملہ ہے وہ ہمارے ملک کا معاملہ ہے۔ ہمیں پاکستان سمیت کسی باہری کی مداخلت برداشت نہیں۔ ہمیں پاکستان کی ہمدردی کی ضرورت نہیں۔ نصیرالدین شاہ نے بالکل دوٹوک کہا اور بجا کہا کہ خان صاحب آپ اپنا گھر دیکھئے۔ ہمیں نہ آپ کی ہمدردی چاہئے اور نہ آپ سے مشورہ چاہئے۔ ہمیں آپ کی مداخلت برداشت نہیں۔
.